9 اگست، 2018

پرچمِ پاکستان


آپ نے پاکستان کا پرچم اپنےگھروں میں ضرور لگایا ہو گا۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے پرچم کا کیا مطلب ہے اور یہ کس چیز کی نشاندہی کرتا ہے۔
آئیں یہ سمجھتے ہیں۔

پرچمِ پاکستان


پاکستان کے جھنڈے میں موجود سبز رنگ مسلمانوں جبکہ سفید رنگ غیر مسلموں کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی بہت زیادہ سبز رنگ کا مطلب ہوا کہ پاکستان میں مسلمان سب سے زیادہ ہیں اور سفید رنگ کم ہونے کا مطلب ہوا پاکستان میں غیر مسلم کم مقدار میں موجود ہیں۔ اس طرح پاکستان کے جھنڈے پر موجود ہلال(پہلی رات کا چاند) ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان ترقی کے پہلے مرحلے میں ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہلال کہ مانند بڑھتا رہے گا اور آخر کار ایک دِن تارے کی طرح چمکنے لگے گا۔

جیسا کہ حفیظ جالندھریؔ نے قومی ترانے میں کہا ہے:۔


پرچمِ ستارہ و ہلال
رہبرِ ترقی و کمال

پانچ کونوں والے ستارے کا مطلب اسلام کے پانچ بنیادی فرائض(توحید، نماز، روزہ، زکوۃ، حج) ہیں۔


ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم
یہ پرچموں میں حسین پرچم
عطائے ربِّ کریم پرچم



پرچمِ پاکستان


جہاں اس سبر ہلالی پرچم کی اس قدر جاہ و جلال اور آن بان شان ہے وہاں اس عظیم اور مہان پرچم کے چند آداب بھی ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں:۔

٭ پرچم کو اندھیرے میں مت لٹکائیں۔ سورج غروب ہوتے ہی اسے اُتار لیں۔ یا پھر دوشنی کا کچھ ایسا انتظام کریں کہ پرچم پر کسی طرف سے بھی اندھیرا نہ پڑے۔

٭ پرچم کو زمیں پر مت پھینکیں اور مٹی سے بچائے رکھیں۔

٭ پرچم کو کبھی بھی عمودی یا اُلٹا مت لٹکائیں۔ یعنی اس طرح لٹکائیں کہ سفید حصہ ڈنڈے(جس پر پرچم لٹکا ہے) کی جانب ہو۔


٭ پرچم پر کسی قسم کی کوئی تصویر نہ لگائیں نہ ہی کوئی تحریر لکھیں۔ جن جھنڈوں پر تصویریں بنی ہوں انہیں مت خریدیں۔

٭ آگ یا کسی بھی نقصان دہ چیز سے دور رکھیں۔



ان اصولوں پر عمل کرنا ہر پاکستانی شہری کا فرض ہے۔ امید کرتا ہوں دوستوں کو میری پرچم کے بارے میں یہ وضاحت سمجھ آ گئی ہو گی۔









مکمل تحریر اور تبصرے>>

28 جولائی، 2018

چودہ اگست یوم قیام پاکستان



چودہ اگست 1947 وہ دن ہے جس دن آگ و خون کی ایک وادی سے گزر کر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے قائد اعظم محمدعلی جناح کی قیادت میں بے مثال قربانیوں کے بعد اپنے لیئے ایک الگ وطن حاصل کیا۔ 

قائد اعظم محمد علی جناح نے نہ صرف انگریز راج کو شکست دی بلکہ کانگریس، نیشنلسٹ مسلمانوں اور علمائکرام کی مضبوط جماعت بھی ان کے مد مقابل تھی۔ تاہم مسلمانوں کی فتح ہوئی اور پاکستان مسلم ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔14 اگست کا دن پاکستان میں قومی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن عوام پاکستانی پرچم کو فضاء میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کے خلاف انتقامی کاروائیوں کا آغاز کر دیا۔
سارے فساد کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی۔مسلمانوں کی املاک اور جائیدادیں ضبط کر لی گئیں۔ان کو ملازمتوں سے نکال دیا گیا۔مسلمانوں کے لیئے سرکاری ملازمتوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔مسلمانوں کو سیاسی تنہائی کا شکار بنایا گیا۔ان حالات میں سر سید احمد خاں نے مسلمانان برصغیر کی فلاح و بہبود کا بیڑہ اٹھایا۔اور علی گڑھ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔جس کا مقصد مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی اور معاشی حالت میں بہتری لانا تھا۔سر سید احمد خاں ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو قومیں سمجھتیتھے۔سر سید احمد خاں کے اس قومی نظریے کی سیاسی بنیاد قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال نے رکھی۔

علامہ اقبال کی آواز قوم مذہب سے ہے نے مسلمانوں کے شعور کو جلا بخشی۔قائد اعظم نے اس نظریے کو سیاسی طور پر اتنے مضبوط طریقے سے پیش کیا کہ انگریزوں کو پاکستان کے مطالبے کے سامنے ہار ماننا پڑی۔قائداعظم نے فرمایا کہ مسلمان اقلیت نہیں وہ قوم کی ہر تعریف کے مطابق ایک قوم ہیں۔قائد نے فرمایا کہ ہندوستان کبھی ایک ملک نہیں رہا اور نہ اس کے رہنے والے ایک قوم۔ان حالات میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیئے 30 دسمبر 1906 میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔1928 میں نہرو رپورٹ پیش کی گئی جس پر اگر عمل ہوتا تو مسلمانوں کے حقوق متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔نہرو رپورٹ کے جواب میں قائداعظم محمد علی جناح نے 1929 میں گیارہ نکات پیش کیئے۔1930 میں علامہ اقبال نے الگ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔23 مارچ 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے لاہور اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔اس قرارداد نے قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔
اس جدوجہد کے نتیجے میں 14 اگست 1947 کو پاکستان کا قیام وجود میں آیا۔تقسیم ہند کے وقت جو ظلم و ستم ہندوستانی سرکار کی زیر سرپرستی مسلمانوں پر ڈھائے گئے اس کی نظیر ملنا محال ہے۔ ہندوؤں کو کئی ماہ پہلے علم تھا کہ پاکستان ضرور بنے گا۔14 اگست 1947 کے ساتھ ہی مسلمانوں سے نفرت اپنی انتہاؤں کو چھونے لگی۔اور ان کو کہا جانے لگا کہ مسلمانو تمہارا نیا وطن بن گیا ہے ہندوستان سے چلے جاؤ۔مسلمان اپنا جتنا اثاثہ ساتھ لا سکتے تھے وہ بیل گاڑیوں اور دوسری سواریوں پر لاد کر بچوں اور عورتوں کو سواریوں پر بٹھا کر اور آنکھوں میں نئے وطن کے خواب سجا کر رواں دواں ہو گئے۔ راستے میں مسلح ہندو برچھیاں،کرپانیں اور تلواریں ہاتھوں میں لیئے معصوم اور نہتے مسلمانوں کو تہ تیغ کرتے۔جن مسلمانوں نے بذریعہ ریل نقل مکانی کی ان کے ریلوے اسٹیشنز پر ٹرینوں کو روک کر قتل و غارت شروع کر دیتے اور جب گاڑیاں لاہور پہنچتیں تو بوگیاں خون سے بھری ہوتیں۔ یہ دیکھ کر مسلمانوں کا لہو خول اٹھتا اور دونوں اطراف سے قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا۔قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے سیاستدان یہ کہنے لگے کہ پاکستان چل نہیں سکے گا۔
چودہ اگست یوم قیام پاکستان

یہ نوزائیدہ مملکت ہے۔ہندوستانی سیاستدان یہ کہنے میں حق بجانب تھے کیونکہ تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے حصے میں جو کچھ آیا تھا وہ کسی طور بھی ایک نئی مملکت کو قائم رکھنے کے لیئے کافی نہیں تھا۔ہندوستان کی بیوروکریسی انگریزوں اور ہندوؤں پر مشتمل تھی۔اور جو پڑھے لکھے مسلمان تھے ان کا تعلق ایسے علاقوں سے تھا جو پاکستان کا حصہ نہیں بنے تھے۔ایسے حالات میں ایک نئی مملکت کا چلنا محال دکھائی دیتا تھا۔اس حوالے سے ہندوستانی خواہشات پوری نہ ہو سکیں اور پاکستان آگے بڑھتا رہا۔آج پاکستان ایک اہم ایٹمی ملک ہونے کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر جگمگا رہا ہے۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو جذبہ قیام پاکستان کے وقت تھا وہ آج ہمیں نظر نہیں آتا۔

اس وقت ہم ذات،پات اور لسانی گروہوں کی بجائے ایک ملت تھے۔جو کلم? طیبہ کی بنیاد پر اکھٹے ہوئے تھے۔کلم? طیبہ کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمان اکٹھے ہوئے جس کے باعث ہمیں الگ وطن ملا۔لیکن آج وہ جذبہ ہم میں موجود نہیں۔آج ہم ذات،پات اور لسانی گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔قائداعظم محمد علی جناح نے اسلامیہ کالج پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ” ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔ مگر آج ہم اسلام کے تابندہ اور روشن اصولوں سے منہ موڑ چکے ہیں۔
چودہ اگست یوم قیام پاکستان
ہجرت کے وقت کے کچھ مناظر

ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں نے صرف اللہ کے نام پر اپنے گھر بار، جائیدادیں چھوڑیں۔ہزاروں لوگ شہید ہوئے صرف اس لیئے کہ ایک ایسا خطہ زمین حاصل کیا جائے جس کو اسلام کے اصولوں کی تجربہ گاہ بنایا جا سکے۔1947 سے پہلے ہم ایک قوم تھے جس کو ملک کی ضرورت تھی۔مگر افسوس آج ہمارے پاس وطن تو ہے مگر ہمیں ایک قوم کی ضرورت ہے۔آج ہم پاکستانی کہلانے کی بجائے بلوچی، سندھی، پنجابی اور مہاجر کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ عوام اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس اور صنعتکاروں سے قائد اعظم کا پاکستان مانگتی ہے۔ جہاں فیصلے عام لوگوں کی بھلائی کے لیئے ہوں۔ جہاں قانون کی پاسداری ہو۔ جہاں امیر اور غریب کے لیئے یکساں قانون ہو۔پاکستان اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے 27 رمضان المبارک کو ایک الگ وطن بن کر دنیا کے نقشے پر ظہور پزیر ہوا۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کی قدر کریں اور شکر ادا کریں۔اور دعا ہے کہ جس پاکستان کا خواب قائداعظم اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا اس کو شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دیکھ سکیں۔آمین
مکمل تحریر اور تبصرے>>

بجھتی ہوئی آنکھوں کی امیدوں کا دیا ہوں

بجھتی ہوئی آنکھوں کی امیدوں کا دیا ہوں
میں تیز ہواؤں کی ہتھیلی پہ رکھا ہوں
میں اپنی ہی آواز کی پہچان میں گم ہوں
تنہائی کے صحرا میں درختوں کی صدا ہوں
میں روز نکل پڑتا ہوں ان جانے سفر پر
منزل کے قریب آ کے بھی منزل سے جدا ہوں
ہر صبح نئے کرب کے چہروں سے ملاقات
ہر شام بچھڑنے کا سبب پوچھ رہا ہوں
یہ خون میں ڈوبے ہوئے معصوم فرشتے
خاموش لرزتے ہوئے ہونٹوں کی دعا ہوں
اس درجہ ہوں سہما ہوا سورج کی تپش سے
گرتی ہوئی دیوار کے سائے میں کھڑا ہوں
اے خاک وطن اب تو وفاؤں کا صلا دے
میں ٹوٹتی سانسوں کی فصیلوں پہ کھڑا ہوں
پلکوں پہ سجائے ہوئے سچائی کی شمعیں
ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہا ہوں
دستار سلامت نہ ردائیں نہ قبائیں
ہر لمحہ سلگتے ہوئے خوابوں کی چتا ہوں
مکمل تحریر اور تبصرے>>

بہتے لہو میں سب تیرا مفہوم بہہ گیا - چودہ اگست صرف تیرا نام رہ گیا

بہتے لہو میں سب تیرا مفہوم بہہ گیا
چودہ اگست صرف تیرا نام رہ گیا
جلنا ہے غم کی آگ میں ہم کو تمام شب
بجھتا ہوا چراغ سر شام کہہ گیا
ہوتا اگر پہاڑ تو لاتا نہ تاب غم
جورنج اس نگر میں یہ دل ہنس کہ سہہ گیا
گزرے ہیں اس دیار میں یوں اپنے روزوشب
خورشید بجھ گیا کبھی مہتاب گہنا گیا
شاعر حضور شاہ سبھی سر کے بل گئے
جالب ہی اس گناہ سے بس دور رہ گیا
مکمل تحریر اور تبصرے>>