28 جولائی، 2018

بجھتی ہوئی آنکھوں کی امیدوں کا دیا ہوں

بجھتی ہوئی آنکھوں کی امیدوں کا دیا ہوں
میں تیز ہواؤں کی ہتھیلی پہ رکھا ہوں
میں اپنی ہی آواز کی پہچان میں گم ہوں
تنہائی کے صحرا میں درختوں کی صدا ہوں
میں روز نکل پڑتا ہوں ان جانے سفر پر
منزل کے قریب آ کے بھی منزل سے جدا ہوں
ہر صبح نئے کرب کے چہروں سے ملاقات
ہر شام بچھڑنے کا سبب پوچھ رہا ہوں
یہ خون میں ڈوبے ہوئے معصوم فرشتے
خاموش لرزتے ہوئے ہونٹوں کی دعا ہوں
اس درجہ ہوں سہما ہوا سورج کی تپش سے
گرتی ہوئی دیوار کے سائے میں کھڑا ہوں
اے خاک وطن اب تو وفاؤں کا صلا دے
میں ٹوٹتی سانسوں کی فصیلوں پہ کھڑا ہوں
پلکوں پہ سجائے ہوئے سچائی کی شمعیں
ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہا ہوں
دستار سلامت نہ ردائیں نہ قبائیں
ہر لمحہ سلگتے ہوئے خوابوں کی چتا ہوں